Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 3

"کیا بات ہے،آج اکیلے میں ہی مُسکرایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔"امتل بلوچ جو کب سے ٹیرس پر کھڑی کسی غیر مری نقطے پر نظریں جمائے مُسکرا رہی تھی نمل بلوچ کی آواز پر مُڑ کر اُسے دیکھنے لگی جو حیرانگی سے دیکھ رہی تھی۔ "اب میں تُمہیں ایسے ہی مُسکراتی ملونگی ہر روز ہر گھڑی۔۔۔۔۔۔" "کیوں،ایسا بھی کیا ہاتھ آ گیا تُمہارے۔۔۔۔۔" "مُجھے تو لگ رہا پوری کائنات میرے ہاتھ میں آ گئی ہے،کیا بتاؤں نمل تُجھے ساری رات میری آنکھ نہیں لگی بس وہ ہی رہا آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔۔۔" "کون۔۔۔۔۔۔"وہ حیرانگی سے پوچھنے لگی۔ "جونیجو۔۔۔۔۔" "جونیجو۔۔۔۔"نمل چونکی۔ "ہاں جونیجو،جس کے بارے میں چھ ماہ سے سُن رہے تھے پر ماری قسمت کہ اُسے دیکھا نہیں کبھی،رات کو دیکھا ہے تو یقین مانو اپنا آپ بھول گیا مُجھے،میں اگر کہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں اُس جیسا شخص نہیں دیکھا تو غلط نہ ہوگا،وہی ہے میرے خوابوں کا شہزادہ ہاں بس وہی ہے جسے دیکھ کر مُجھے دُنیا مکمل لگی۔۔۔۔۔۔۔"امتل بلوچ پر اُسکا تیر چل چُکا تھا اس لئے وہ خواب سی کیفیت میں بولتی نمل کو حیران کرتی چلی گئی۔ "اگر یہ بات ہے تو اُس کو اب دیکھنا ہی پڑے گا۔۔۔۔۔۔"نمل کو بھی دلچسپی ہوئی اُس انجانے شخص کو دیکھنے کی جس کی ایک مُلاقات ہی امتل بلوچ کو گھائل کر گئی۔ "جونیجو۔۔۔۔۔۔"تبھی امتل بلوچ کی چہکتی آواز نمل کے کانوں میں پڑی تو اس نے اُسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں وہ بلیک شلوار قمیض میں ملبوس گاڑی سے باہر نکلتا ان دونوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ "ارے یار،یہ تو بہت ڈیشنگ ہے بلکل ناولز کے ہیروز کی طرح۔۔۔۔۔۔"نمل بھی حقیقتاً امپریس ہوئی تھی اُسکی وجاہت سے جبکہ امتل نے زور سے اسکے بازو پر چُٹکی لی۔ "خبردار اگر تُم نے اسے ایسی ویسی نظروں سے دیکھا،یہ صرف میرا ہے اور اس پر میرا ہی حق ہے۔۔۔۔۔۔" "کیا پتہ اُسکی زندگی میں کوئی اور ہو۔۔۔۔" "نہیں۔۔۔۔۔"امتل نے سختی سے اُسکی بات کاٹی۔ "کبھی بھی نہیں،امتل بلوچ کا دل اُس پر آیا ہے اگر کسی اور نے اُسکی طرف دیکھنے کی کوشش بھی کی تو میں اُسکی آنکھیں پھوڑ لونگی۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لہجے میں بلا کی سختی تھی۔ "اوکے اوکے ریلکیس،وہ تُمہارا ہی ہے اب جاؤ اُس کے پاس۔۔۔۔۔۔"نمل اُسکی جنونیت سے واقف تھی اس لئے جلدی سے اُسکا دھیان جونیجو کی سمت کیا جو اب اندر بڑھ رہا تھا۔ "شہباز اور ایاز بھا تو حویلی میں نہیں نہ،یو نو اُنکو جونیجو سے کوئی خاص الرجی ہے۔۔۔۔"وہ جاتے جاتے پلٹی۔ "نہیں وہ دونوں کراچی گئے،بابا سائیں بلوچ ھاؤس ہیں اور اماں سائیں اپنے کمرے میں،فُل آزادی ہے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔"نمل کے اطلاع دینے پر وہ مُسکراتی نیچے آئی جہاں جونیجو گُھمن کے پاس کھڑا کُچھ سمجھا رہا تھا اسے دیکھ کر وہ گُھمن کو اشارہ کرتا اسکی طرف آیا۔ "کیسی ہیں آپ۔۔۔۔۔۔"وہ جو اسے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر خُوش ہو رہی تھی اس کے بُلانے پر مُسکرائی۔ "اگر کہوں کل رات سے زرا ٹھیک نہیں تو۔۔۔۔۔۔" "تو میں یہ کہونگا کہ آپکو پہلی فرصت میں ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔" "تو اگر میں یہ کہوں کہ اس بیماری کا ڈاکٹر کے پاس علاج نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسے معنی خیز نظروں سے دیکھتی بولی تو جونیجو اُسکی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے بولا۔ "تو پھر وہ بیماری آپکی خود ساختہ ہو گی،اینی ویز مُجھے بلوچ سائیں نے حویلی کی سیکورٹی چیک کرنے کا بولا ہے،تو آپ میری راہنمائی کریں گئیں حویلی دیکھا نے میں۔۔۔۔۔۔"جونیجو کی بات پر وہ خُوش ہوئی۔ "شیور وائے ناٹ یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے،آئیے۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے لے کر اندر کی طرف بڑھی۔ "صندل بُوا،جونیجو بہت خاص مہمان ہیں انکی مہمان نوازی بھی خاص طریقے سے ہونی چاہئیے،زرا جلدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ہال سے گُزرتی صندل بُوا سے بولی جنکی طرف جونیجو نے کُچھ خاص نظروں سے دیکھا تھا۔ "جی چھوٹی بی بی۔۔۔۔۔"صندل بُوا جونیجو پر ایک نظر ڈالتیں کچن کی طرف بڑھ گئیں۔پھر وہ اسے بڑے فخر سے اپنے ساتھ لئے حویلی دکھانے لگی یہ کوئی چار ایکڑ پر مُشتمل ایک کشادہ اور وسیع حویلی تھی مُغل طرز کی بنی اس حویلی کے بارہ کمرے نیچے اور بارہ ہی اُوپر تھے آگے ایک بڑا سا ہال جس میں تین لکڑی کے بڑے بڑے دروازے نصب تھے اور پھر ایک لمبی روش اور زرافہ کے قد جتنا بڑا مین گیٹ جس پر تین لوگوں کا پہرہ تھا۔امتل بلوچ بیس منٹ میں اسے ساری حویلی دکھا چُکی تھی سوائے بیک سائیڈ کی طرف سے جس پر جونیجو بول اُٹھا۔ "ہم نے سب دیکھ لیا مگر حویلی کے بیک سائیڈ پر بنے دو رومز نہیں دیکھے۔۔۔۔۔" "وہ،وہ تو فالتو ہیں وہاں سیکورٹی کی کیا ضرورت،وہاں حویلی کے نوکر بستے ہیں اور وہ ہمارے لئے کوئی اتنے خاص نہیں کہ اُنکی حفاظت کا بھی سوچیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نخوت سے بولتی جونیجو کو زہر لگی تھی اُسے اُن امیر زادوں سے نفرت تھی جو غریب لوگوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھنا پسند کرتے تھے۔ "اوکے اب میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔"وہ سپاٹ لہجے میں بولتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔امتل بلوچ اُسے روکتی ہی رہ گئی۔

"_________________________________"

وہ حویلی کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیتا واپس بلوچ ھاؤس آیا جہاں قادر بلوچ اُسے پریشانی اور غُصے کے ملے جلے تاثرات لئے ادھر سے اُدھر ٹہلتا دکھائی دیا۔ "کیا ہوا بلوچ سائیں۔۔۔۔۔۔۔" "بھاگ گئی وہ۔۔۔۔۔۔۔۔" "کون،نتاشا خان۔۔۔۔۔؟وہ حیران ہوا۔ "ہاں وہی حرام زادی،رات کو ہی نکل گئی یہاں سے،چوکیدار کو بول کے گئی کہ مجھے بلوچ نے حویلی بُلایا ہے،راجو بتا رہا تھا کہ ایک کالے رنگ کی گاڑی آئی تھی اُسے لینے جو گیٹ سے کُچھ فاصلےپر ہی رُکی تھی۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ نے اسے تفصیل سے آگاہ کیا۔ "تو اُسکا یہی مطلب مریام شاہ کو پتہ چل گیا تھا ہمارے بارے کہ ہم پر نتاشا کی اصلیت کھل گئی ہے پر سوچنے کی یہ بات،کل رات تو آپکی حویلی میں ہی میں نے سب بتایا تھا آپکو تو وہاں پھر کون جس نے اُسی ٹائم مریام شاہ کو بتا دیا اور وہ اُسی وقت نتاشا کو وہاں سے لے گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو نے پُر سوچ انداز میں کہا جس پر بلوچ چونکا۔ "تُمہارا مطلب نور حویلی میں بھی اُسکا کوئی بندہ موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی،یا پھر اُسے خُود شک پڑ گیا ہوگا،یا یہ بھی ہو سکتا کہ جس کام کے لئے اُس نے نتاشا کو یہاں بھیجا ہو وہ مُکمل ہو گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو نے اُس کے آگے سوچ کے تمام در رکھے۔ "نہیں اُسکا بس ایک ہی مطلب ہے مُجھ سے،اور وہ مطلب نہ تو اُسکا پورا ہوگا اور نہ میں ہونے دونگا۔۔۔۔۔۔"بلوچ صوفے پر بیٹھا ساتھ اسے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ "وہ آپ کو نُقصان پہچانا چاہتا ہے یا آپکی جان لینا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو جو انکی دُشمنی کی اصل وجہ سے واقف نہ تھا اس لئے پوچھنے لگا جس پر بلوچ کے چہرے پر کمینی سی مُسکراہٹ آئی۔ "جان وہ میری تب تک نہیں لے سکتا جب تک اُسکی جان میرے قبضے میں ہے۔۔۔۔۔۔۔" "اگر اُسکی جان آپکے قبضے میں ہے تو آپ اُسے اینٹ کا جواب پتھر سے کیوں نہیں دیتے،اُسکے وار اُسکی طرف ہی واپس پلٹنا تو آسان ہے پھر آپ کے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "ہاں پر مُجھے ابھی کسی اچھے وقت کا انتظار ہے،تب تک مُجھے لطف لینا ہے اُسکی بے بسی کا اُسکے ترپنے کا۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ کے ہونٹوں پر مکرو مُسکراہٹ تھی۔ "ایسی بھی کیا چیز ہے آپ کے پاس جس کے لئے مریام شاہ جیسا بندہ تڑپ رہا۔۔۔۔۔۔"وہ یقیناً حیران ہوا تھا۔ "مریام شاہ کی کمزوری ہے میرے ہاتھ،یہی سمجھو ایک چڑیا ہے میرے پاس میری قید میں جس کے اندر مریام شاہ کی جان بند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" "پھر تو بہت اچھی بات ہے بلوچ سائیں،مُجھے اجازت دیں پھر کراچی کے لئے نکلنا ہے۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ "اب رانا علی سے تُم خُود ہی ڈیل کر لینا،میں تو بہت تھک گیا ہوں،جاتے ہوئے شمشاد سے کہنا جو لڑکی لایا ہے میرے لئے وہ اور میرا پسندیدہ مشروم دونوں بھیج دے اندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "اوکے۔۔۔۔۔۔"وہ اس پر ایک ناگوار نظر ڈالتا باہر نکل گیا۔اسے قادر بلوچ کے کُچھ کاموں اور حرکتوں سے شدید نفرت تھی مگر وہ مجبوری کے تحت خاموش تھا۔

"_________________________________"

وہ کھانے کی طلب میں ریسٹورنٹ آیا تھا آڈر لکھوا کر ٹائم گُزارنے کو ادھر اُدھر دیکھنے لگا تبھی اسکے کانوں میں اپنے پیچھے بیٹھے شخص کی آواز پڑی جو موبائل کان سے لگائے کہہ رہا تھا۔ "یار میں تنگ آ گیا ہوں ان لڑکیوں سے،اب میں ہر ایک سے تو شادی کرنے سے رہا،دونوں کہہ رہیں کہ ہمیں بھگا کے لے جاؤ،دل تو کرتا یہ چھوٹی موٹی چوریوں کا دھندا چھوڑ کر لڑکیاں فروخت کرنا شروع کر دُوں،خُدا نے مُجھے بس شکل دے دی بھلا پیسے دے دیتا خُوبصورتی کے بدلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جو بھی تھا سخت جھنجھلا یا ہوا لگ رہا تھا۔ایاز بلوچ اُٹھ کر اُسکی ٹیبل پر آیا جو رف بیلو جینز پر ییلو ٹی شرٹ پہنے برگر کھانے میں مصروف تھا۔ایاز بلوچ نے دیکھا وہ بلا کا ہینڈ سم چوبیس سالہ لڑکا تھا۔ "کیا نام ہے تُمہارا۔۔۔۔۔۔۔"ایاز بلوچ کے پُوچھنے پر وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ "میرا نام ایاز بلوچ ہے،ایم این اے قادر بلوچ کا بیٹا۔۔۔۔۔۔" "ارے باپ رے،سائیں آپ،مُجھے بُلا لیتے وہاں آپ کیوں چل کر آئے،میں اب پہچانا ٹی وی پر دیکھا تھا آپ کو،آپ صدر بن گئے ہیں سندھ کی یوتھ ونگ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خُوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات سے فر فر بولنے لگا۔ "ہاں وہی۔۔۔۔۔۔"ایاز بلوچ مُسکرایا۔ "سائیں میرا ہاتھ تو پکڑیں،مجھے لگتا میں خواب دیکھ رہا ہوں،آپ میرے اُک عام سے آدمی کے سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آنکھوں کو بار بار ملتا کافی محضکہ خیز لگ رہا تھا۔ "بس جس چیز سے مطلب ہو اُس تک خُود ہی جانا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" "کیا مطلب سائیں،میں سمجھا نہیں۔۔۔۔۔۔۔" "سب سمجھا دُونگا،تُم میرے ساتھ کھانا شُروع کرو۔۔..........."ایاز بلوچ نے کہتے ہوئے اُسکی توجہ کھانے کی طرف دلائی جہاں ویٹر رکھ رہا تھا۔اُسکی تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کجا کہ اُسکا اسکے ٹیبل تک آنا اب کھانے کی آفر؟ "سائیں مُجھ سے کوئی غلطی ہو گئ ہے کیا،آپ کہیں وہ فلموں کی طرح کھانا کُھلا کر مُجھے مارنے تو نہیں لگے،یہ دیکھیں سائیں ہاتھ جوڑتا ہوں میں نے تو آج تک کسی مکھی کو بھی نہیں مارا ہاں بس چھوٹی موٹی چوریاں کی ہیں بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ رو دینے کو تھا۔ "ارے مرد بنو،اس میں ڈرنے والی کیا بات،کُچھ نہیں کیا تُم نے،بس مُجھے کسی کام والے آدمی کی ضرورت تھی اس لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "آپ،آپ سچ کہہ رہے ہیں سائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے یقینی کے زیر اثر تھا۔ "ہاں،نام کیا ہے تُمہارا اور کیا کرتے ہو تُم۔۔۔۔۔۔"ایاز بلوچ بریانی سے انصاف کرتا پوچھنے لگا۔ "جی جُگن نام ہے میرا پر سارے مُجھے جگو کہ نام سے جانتے ہیں میرے محلےّ والے،انٹر پاس ہوں اور نوکری کوئی ملتی ہی نہیں۔۔۔۔۔۔" "اب بے فکر ہو جاؤ،نوکری بھی دونگا اور ساتھ بہت سارا کیش بھی۔۔۔۔۔۔۔" "کیا سچ میں۔۔۔۔۔۔"جگو کہ مُنہ میں پانی بھر آیا۔ "پر مُجھے کرنا کیا ہوگا۔۔۔۔۔" "وہی جو تُم اب تک کرتے آئے ہو۔۔۔۔۔۔"وہ پانی کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے بولا۔ "اب تک۔۔۔۔۔"وہ اچھنبے سے بولا۔ "ہاں جو تُم کر رہے ہو وہی کرنا ہے،جس طرح اب لڑکیوں کو اپنی شکل و صُورت سے اپنے جھانسے میں کرتے ہو ویسے ہی کرنا ہے۔۔۔۔۔۔" "میں سمجھا نہیں سائیں۔۔۔۔۔۔" "چلو میرے ساتھ،راستے میں تُمہیں سب بتا بھی دونگا اور سمجھا بھی دُونگا۔۔۔۔۔۔۔"وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا اُٹھ کھڑا ہوا اور والٹ سے کُچھ پیسے نکال کر ٹیبل پر رکھے جن پر جگو بڑی آسانی سے ہاتھ صاف کر گیا ایاز بلوچ کی آنکھوں سے اسکی یہ حرکت مخفی نہ رہ سکی وہ ہنس دیا۔ "اچھا اب سُنو۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھاتے ہوئے بولا۔ "جو بھی کام میں تُمہیں سونپ رہا ہوں اُس میں تُمہیں بے حساب پیسہ ملے گا بس اُس سے پہلے تُمہیں مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا کہ تم اس کام کو نہایت ایمانداری اور خُفیہ طریقے سے کرو گئے،کسی کو اگر بتانے یا ہم سے فراڈ کرنے کی کوشش کی تو پھر ہمارے ہاتھوں سے تُمہارا بچنا نا ممکن ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔"اب کی بار اُسکا لہجہ بے لچک تھا۔ "کیسی بات کر رہے ہیں آپ سائیں،کہاں آپ لوگ کہاں میں آپ سے غداری کر کے مُجھے مرنا ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگا۔ "کافی سمجھدار ہو تُم۔۔۔۔۔۔۔"ایاز بلوچ مُسکرایا۔ "تُمہیں لڑکیوں کو اپنی محبت کے جھوٹے جال میں پھنسا کر بس ہم تک لانا ہوگا،اتنی صفائی سے اُن لڑکیوں کو ہم تک لانا کہ اُنکے گھر والوں کو ہمارا کیا تُمہارا بھی پتہ نہ چل سکے،سمجھ رہے ہو نہ میری بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "جی سائیں،سمجھ گیا یہ تو بہت آسان کام ہے میرے لئے۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار وہ بھی مُسکرا دیا۔ "اوکے ڈن،اگلا طریقہ تُمہیں امجد سکھا دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر جگو نے سر اثبات میں ہلا کر اپنی رضامندی دے دی۔

"___________________________________"

مریام شاہ اس وقت اپنے پرائیویٹ روم میں بیٹھا تھا جہاں دیوار پر اس نے ایل ای ڈی لگی جس میں وہ جونیجو اور قادر بلوچ کو دیکھ رہا تھا۔ "وہ آپکو نُقصان پہچانا چاہتا ہے یا آپکی جان لینا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو پوچھ رہا تھا۔ "جان وہ میری تب تک نہیں لے سکتا جب تک اُسکی جان میرے قبضے میں ہے۔۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ مُسکرایا تھا۔ "اگر اُسکی جان آپکے قبضے میں ہے تو آپ اُسے اینٹ کا جواب پتھر سے کیوں نہیں دیتے،اُسکے وار اُسکی طرف ہی واپس پلٹنا تو پھر آسان ہے آپ کے لئے۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو کہہ رہا تھا۔ "ہاں پر مُجھے ابھی کسی اچھے وقت کا انتظار ہے تب تک مُجھے لُطف لینا ہے اُسکی بے بسی کا،اُسکی تڑپ کا۔۔۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ کی بات پر مریام شاہ کی آنکھوں سے نفرت کے ایسے شُعلے نکلے کہ اگر قادر بلوچ سکرین کی جگہ حقیقت میں اُسکے سامنے ہوتا تو وہ بھسم ہو جاتا۔ "تُمہارا انتظار انتظار ہی رہے گا قادر بلوچ،صرف ایک ہفتہ بس اور ویٹ کر لو تُم پھر تُمہاری حالت سے میں لُطف لُونگا،تُمہاری بے بسی کا تُمہارے تڑپنے کا اور تُمہاری ایسی موت کا کہ موت بھی پناہ مانگے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رگوں میں اُبلتے خُون کے ساتھ وہ بولا پھر سُرخ آنکھیں سکرین پر ٹکائیں جہاں جونیجو کے جانے کے بعد وہ کسی لڑکی سے نازیبا حرکات میں مصروف تھا۔مریام شاہ نے ایک زہرخند نگاہ اُس پر ڈالی اور اپنے آفس میں آیا جہاں اُسامہ بیٹھا ہوا تھا اسے دیکھ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ "نتاشا کو سیو جگہ پر پہنچا دیا گیا ہے،وہ بار بار آپ سے ملنے کی ضد کر رہی،وہ آزادی چاہتی ہے،وہ کہتی ہے اُس نے آپکا کام تو کر دیا اب وہ اس قید سے نکلنا چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ نے آگاہ کیا۔ "جو مُجھ سے پیسے لے کر میرا کام کر سکتی وہ کسی اور سے لے کر ہمارے خلاف بھی چل سکتی،اُسے بس اتنا کہو کہ اب اُسکی آزادی اُسکے لئے موت ہی لائے گی کیونکہ قادر بلوچ کے کارندے ڈھونڈ رہے اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آفس میں رکھی فریج کی طرف بڑھا پانی کی بوتل نکال کر مُنہ سے لگائی۔ "جو کام سونپا تھا تُمہیں اُسکا کیا بنا۔۔۔۔۔۔۔"پانی پی کر اپنی سیٹ پر بیٹھا۔ "ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ مُسکرا کر بولا مریام شاہ بھی مُسکرا دیا۔ "سُنا ہے حاکم اگلے ماہ آ رہا مطلب کہ ایک ہفتے بعد،تُم جانتے ہو نہ اب کیا کرنا ہے ہمیں اور کتنے دنوں میں کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔" "جی اُسکی آپ فکر نہ کریں،جونیجو کا کیا کرنا ہے اب۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر وہ زیر لب مُسکرایا۔ "ابھی فلحال تو اُسے اپنا کام کرنے دیتے ہیں،پھر سوچتے ہیں اُسکا کُچھ،جونیجو،،،،مریام شاہ کا خاص آدمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ہنسا اور پھر ہنستا ہی چلا گیا جسکا ساتھ اُسامہ نے بھی دیا تھا۔

"__________________________________"

   0
0 Comments